حیدرآباد ۔۱۵؍جولائی( پریس نوٹ) رمضان المبارک برکت والا مہینہ ہے اس
میں محسوس اور غیبی دونوں طرح کی برکتیں ہیں۔ رمضان شریف میں عمل قلیل پر
بھی جزائے کثیر عطا ہوتی ہے۔ نیکیوں میں دس گنا سے سات سو گنا تک زیادتی ہو
جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ عطا فرماے تو اس کا کرم خاص ہے۔
رمضان مبارک غرباء کی غم خواری، مواسات اور سخاوت کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر
عمل صالح اور کار خیر مقبول بارگاہ حق تعالیٰ ہوتا ہے۔ مومنوں کے رزق میں
وسعت ہوتی ہے اور روزہ داروں کو افطار کروانے کا بڑا اجر و ثواب ہے۔ اللہ
تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر اسی کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت میں
سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرنا متقیوں کا وصف عزیز ہے اور اس عمل کی
جزا بھی بہت زیادہ ہے خیرات سے مال میں کمی نہیں بلکہ زیادتی اور برکت ہوتی
ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ منورہ رونق افروز ہوے تو
حضرت عبد اللہ بن سلامؓ حاضر ہوے اور انھوں نے حضور اکرم ؐ سے جو پہلا
ارشاد سنا وہ یہ تھا کہ’’ اے لوگو ! سلام کو پھیلاو، کھانا کھلاو، صلہ رحمی
کرو اور راتوں میں جب لوگ سوتے ہوں تو نماز پڑھو، سلامتی سے جنت میں چلے
جاوگے‘‘۔ یہ بھی فرمان نبویؐ ملتا ہے کہ جو مسلمان کسی برہنہ مسلمان کو
پہناے اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز جوڑے پہناے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے
مسلمان کو کھلاے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلاے گا۔ جس ضرورت مند کو
کپڑا پہنایا گیا اس کے جسم پر اس کپڑے کی ایک چیز بھی باقی رہے اس وقت تک
اللہ تعالیٰ پہنانے والے کو آفات دنیوی سے محفوظ رکھتا ہے۔ جو رضاے حق
تعالیٰ کے حصول کی خاطر اپنی خیرات کو چھپاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات
مرحمانہ کا مستحق بن جاتا ہے۔ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی
ہرک نے رمضان مبارک کے روح پرور اور نورانی ماحول میں ۱۵؍ رمضان المبارک
کو بعد نماز ظہر مسجد رضیہ ملک پیٹھ اور بعد نمازعصر حمیدیہ شرفی چمن میں
روزہ دار مصلیوں کے نمائندہ اجتماع سے خطاب کی سعادت حاصل کرتے ہوے ان
حقائق کا اظہار کیا۔ وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے’’
حضرت تاج العرفاءؒ یادگار خطابات‘‘ کے اٹھارویں سال کے ۱۵ ویں روز کے
اجلاسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام جاری
رکھتے ہوے کہا کہ اس ماہ مبارک کے سلسلہ میں جو ہدایات احادیث شریفہ میں
آئی ہیں ان میں روزہ داروں کے افطار کرانے کے ضمن میں ایثار سے کام لینے کا
پہلو نمایاں
ہے۔ اس ماہ مبارک میں اگر کوئی کسی روزہ دار کو افطار کراے تو
اس کے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور دوزخ کی آگ سے رہائی اور روزہ دار کا سا
ثواب ملتا ہے اور جسے افطار کروایا ہے اس کے روزہ کے اجر و ثواب میں بھی
کمی نہیں ہوتی۔انھوں نے ارشاد نبوی ؐکے مفاہیم کے حوالے سے بتایا کہ جب
لوگوں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ اگر ہم میں کسی کو افطار کرانے کی سکت
نہ ہو؟ تو حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اسے عطا فرماے گا
جو روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ یا کھجور یا گھونٹ بھر پانی پلادے اور
افطار کرانے کی مسرت پاے تاہم جو روزہ دار کو شکم سیر کر دے (یعنی پیٹ بھر
کھلاے) اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلاے گا جس کے باعث وہ کبھی پیاسا
نہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جاے‘‘۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے
کہا کہ اللہ و رسول اللہؐ کی خوشنودی کی خاطر غربا و مساکین کی دلداری
کرنا، دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر اپنی ضرورتوں کو پس پشت
ڈالنا یہاں تک کہ بھوکوں کو کھلانے کی خاطر اپنی بھوک کی پروا نہ کرنا اور
اپنے بھائیوں کے آرام کے لئے خود زحمت گوارا کرنا اہل سعادت کی پہچان ہے
ماہ رمضان میں شرح اجر وثواب میں بے حد و حساب اضافہ کے باعث غربا و
مساکین، حاجت مند افراد کی راحت رسانی کے لئے ملت کے دردمندوں کی فلاحی
سرگرمیاں قابل فخر و تحسین ہوتی ہے۔ مسلم معاشرہ کا وہ طبقہ جو مال و دولت
کی نعمتوں سے مالا مال ہوتا ہے اور اصطلاح شریعت میں جو صاحب نصاب ہیں ان
کا جذبہ ایمان اور حکم الٰہی کی اطاعت و تعمیل میں فریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی و
نیز انفاق، صدقات و خیرات اور داد و دہش کا مبارک مشغلہ معاشرہ کے نادار
اور حاجت مند لوگوں کی بہت ساری بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔
اللہ کے بندوں کی مدد کرنے والے ہر گز محروم نہیں رہتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے
فضل و کرم سے خوب نوازے جاتے ہیں جتنا کچھ راہ خدا میں خرچتے ہیں غیبی
خزانوں سے یقیناًاس سے سینکڑوں گنا زیادہ پاتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے
لئے اجر عظیم محفوظ ہے۔ یہاں تک کہ جب مسلمان اپنے گھر والوں پر بھی ان کی
ضرورت کے موافق خرچ کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے اجر و ثواب کا باعث بنتا
ہے ہر نیک کام میں خرچ کئے جانے والے مال کا بدل اور ثواب ہے لیکن جو مال
اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب کی ضرورتوں پر خرچ کیا جاتا ہے اجر و فضیلت
میں ایک گونا زیادہ ہے۔اجلاسوں کے آخر میں بارگاہ رسالت مآب ؐ میں سلام
گزرانا گیا اور رقت انگیز دعا ئیں کی گئیں۔